بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
!السلام علیکم۔
کیسے ہیں آپ سب امید کرتے ہیں آپ سب خیریت سے ہوں ۔گے اور ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہے ہوں گے
کچھ دنوں پہلے میں نے ایک اخبار میں ایک کالم پڑھا وہ مجھے بہت اچھا لگا اور میرا دل چاہا کہ میں آپ سے بھی شئیر کروں وہ کالم بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں تھا اور ہمارے ملک کے ایک مایہ ناز کالم نگار اور مصنف جاویدچوہدری کا لکھا ہوا تھا میں آپ سے ضرور شئیر کرنا چاہونگی ۔
اس کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ 10 سال پرانی بات ہے ہم اپنے بچوں کی کارکردگی دیکھنے کے لیے اسکول گئے تھے میرے ساتھ ایک شخص بیٹھا ہوا تھا اس کے چہرے پہ کوئی پریشانی اور ندامت نہیں تھی۔وہ اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا جب کہ میں کافی پریشان تھا کیونکہ میرے بیٹے کے نمبر کوئی اتنے خاص اچھے نہیں آئے تھے جس کی وجہ سے میرے چہرے پر پریشانی اور ندامت دونوں موجود تھے لیکن میرے برابر میں بیٹھے ہوئے شخص کےاطمینان کو دیکھ کر میں مجبور ہو گیا کہ اس سے پوچھوں کہ آپ کے بیٹے کا رزلٹ کیسا رہا ؟؟ اس نے جواب دیا کہ میرا بیٹا تو فیل ہو گیا ہے میں اس کی شکل کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا بیٹا؟۔ فیل بھی ہو گیا ہے لیکن وہ اتنا پرسکون کیسے ہے
۔ہم سب اپنے بچوں کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں ہمیشہ ٹاپ کرتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم انہیں دس بارہ سال کی عمر میں افلاطون بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور دنیا کے ذہین ترین بچے بھی ہم میں سے شائد ہی کوئی والد یا والدہ ہوں گی جو اپنے بچوں کے لئے میڈل ایوارڈز پرائز کی خواہش نہ رکھتی ہو جو اپنے بچوں کے لئے تالیا نہ سننا چاہتے ہوں لیکن جب ہمارے بچے فیل ہو جاتے ہیں ان کے نمبر کم آتے ہیں یا یہ آخری درجہ میں پاس ہوتے ہیں تو ہماری خواہشوں کو دھچکا لگتا ہے اور ہم پریشان ہوجاتے ہیں۔
لیکن آج میں جس والد سے ملا تھا وہ تو بہت ہی مختلف تھا وہ بیٹے کی ناکامی پر مسکرا رہا تھا رزلٹ دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کو سمجھا رہا تھا ہمیں پڑھائی پر بھی توجہ دینی چاہئے میں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا اس نے پیار سے میرا ہاتھ تھاما اور یوں ہم دونوں دوست بن گئے،، میں نے اس سے پوچھا بچے کے فیل ہو نے پر دکھی کیوں نہیں ہے اس نے قہقہہ لگایا اور بیٹے سے پوچھا بیٹا آپ کے نمبر کیوں کم آے ہیں اس کے بچے نے بڑے آرام سے جواب دیا میں نے پڑھائی نہیں کی تھی اس نے پوچھا کیوں بچے نے جواب دیا میں ویڈیو گیم کھیلتا رہا فلمیں دیکھتا رہا لیکن اب میں پڑھوں گا محنت کروں گا اور پڑھائی پر توجہ دوں گا باپ نے کہا کیا اب تم ٹاپ کرو گے بچے نے سر ہلایا اور کہا نہیں میں پاس ضرور ہو جاؤں گا لیکن میں ٹاپ نہیں کر سکتا میرے کنسپٹس کلیئر نہیں ہیں اور رٹا لگانے سے آپ منع کرتے ہیں ہاں میں محنت ضرور کروں گا پاس ہو کر آپ کو ضرور دکھاؤں گا۔
پھر اس با پ نے کہا تعلیم اور تربیت میں جسم اور روح کا تعلق ہوتا ہے تعلیم جسم ہوتی ہے اور تربیت روح دنیا میں جس طرح روح کے بغیر جسم زندہ نہیں رہ سکتا بالکل اسی طرح تربیت کے بغیر تعلیم بھی بے معنی ہے ہم اپنے بچوں کو مہنگی تعلیم دلاتے ہیں ، مہنگے اسکول میں داخل کرواتے ہیں،مہنگے ٹیوٹر مہنگی کتابیں فراہم کرتے ہیں ہم انہیں مہنگے لباس گاڑیوں اور خوراک بھی دیتے ہیں لیکن ہم ان کی تربیت کا بندوبست نہیں کرتے ہم انہیں سچ بولنے اور اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے ،اپنی خامیوں کو سمجھنے ارادہ کرنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کی تربیت نہیں دیتے ہم انہیں آہستہ بولنے دوسرے کی رائے کا احترام کرنے ،برداشت کرنے ،فٹ پاتھ پر چلنے دوسروں کو راستہ دینے اشارے پر رکنے، سلام میں پہل کرنا اور تمام لوگوں کو برابر سمجھنے کی ٹریننگ نہیں دیتے لیکن میں نے اپنے بچوں کو ٹریننگ دے رکھی ہے ان کے نمبر کم آتے ہیں یہ فیل بھی ہو جاتے ہیں یہ لیکن یہ کسی کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرتے یہ کسی کا حق نہیں مارتے یہ کسی مجبور کسی معذور کا مذاق نہیں اڑاتے یہ ہارن نہیں بجاتے اور جھوٹ نہیں بولتے وہ ٹھہرا اور بولا میرے بچے نمبر کسی بھی وقت لے لیں گے یہ کسی بھی وقت پڑھنا شروع کردیں گے لیکن اگر ان کی تربیت کا وقت گزر گیا تو یہ زندگی میں کبھی اچھے انسان نہیں بن سکیں گے یہ حوصلہ مند نہیں ہوسکیں گے آپ خود سوچیں اگر امتحان میں ٹاپ کرنے والا بچہ بد تمیز ہو وہ ظالم ہو وہ انسان کو انسان نہیں سمجھتا ہوں جو دھوکے باز ہو جھوٹا ہو تو آپ اسے کتنی دیر تک برداشت کریں گے آپ اس کا کتنی دیر احترام کریں گے میں خاموشی سےسنتا رہا اور وہ بولا ہم دوسروں کی کامیابیوں کو سرٹیفکیٹ ایوارڈ اور تمغوں کی وجہ سے پسند نہیں کرتے ہم انہیں بیہیویر کی وجہ سے پسند یا ناپسند کرتے ہیں مگر پاکستان کا کوئی سکول بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتا ہم بچوں کو آرٹس سے لے کر سائنس اور میوزک سے لے کر بزنس تک کے مضامین پڑھا دیتے ہیں لیکن ہمارے بچے اچھے شہری کیسے بن سکتے ہیں اور انہیں سوسائٹی میں کیسے بیہیوکرنا چاہیے پاکستان کا کوئی میں اسکول انہیں یہ ٹریننگ نہیں دیتا پاکستان کے کسی سکول میں بھی ہیں بیہیویر کا مضمون نہیں پڑھایا جاتا سچ کیوں اور کیسے بولنا چاہیے دوسروں کی رائے کا احترام کیسے کرنا چاہیے ہم حسد سےکیسے بچ سکتے ہیں ہم غصے کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں ہم خود کو شک سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں ہم زندگی میں آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں ہم اپنے ساتھیوں کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں اور ہم ماحول کو صاف کیسے رکھتے ہیں پاکستان کا کوئی سکول بچوں کی اس کی ٹریننگ نہیں دیتا لیکن میں نے اپنے بچوں کی ٹریننگ دی ہے میں نے تربیت کو تعلیم پر فوقیت دی
یہ تو تھا وہ مضمون جو میں نے اخبار میں پڑھا تھا اور میرا دل چاہا کہ میں سب سے شیئر کروں۔
اور میری اپنی ذاتی رائے بھی یہی ہے اسی مضمون کے عین مطابق ہے نمبر تو کسی بھی وقت حاصل کیے جا سکتے ہیں بچے کو کسی بھی وقت توجہ سے پڑھایا جا سکتا ہے لیکن اگر ٹاپ کرنے کے بعد وہ بد تمیز ہو گئے تو اس کامیابی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا یہ سب بے معنی ہو گی غور کیجئے اور تربیت کے وقت کو ہاتھ سے مت جانے دیجئے تعلیم سے کہیں زیادہ ہام تربیت ہے تربیت پر توجہ دیں ان نمبروں کی دوڑ میں شامل کردینا صرف کامیابی نہیں ہے ۔خاص طور پر پاکستانیوں کو تربیت کی ضرورت ہے تعلیم سے زیادہ آپ نے اپنے بچے کو صرف marks gaining مشین تو نہیں بنایا ہے نمبروں سےزیادہ بچوں کی تربیت پر توجہ دیں تاکہ ہمارا ماحول پرسکون ہو اور ایک واقعی اسلام کا قلعہ بنے اور یہ سب آج والدین اور سکول کی ذمہ داری ہے اگر ہم نے بچوں کی تربیت اچھی کی تو ہمارا معاشرہ بہتر ہوگا اور ہم ایک اچھی نسل پروان چڑھائیں گے۔جو کامیابیوں کے اور اخلاق کے دنیا میں جھنڈے گاڑے گی ۔
Very nice article with fact and reality
ReplyDelete