ہماری ڈرامہ انڈسٹری۔ ۔۔!!!
آجکل چینلز کی بھرمار میں ایک اچھے ڈرامے کے لیے اپنی جگہ بنانا کوئی اتنا آسان کام نہیں رہا ساری دنیا کے چینل سب آپ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں تو دیکھنے والا بہت زیادہ چوائس اور آپشن َ رکھتا ہے اور چینل سیرفیینگ کرتا ہے پھر جہاں پر رک جاتا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس میں کچھ خاص ہے۔
آج کل ویسے بھی انٹرٹینمنٹ بہت محدود ہو کر رہ گئی ہے ویڈیو گیمز، موبائل اور ٹی وی بس یہ تین چیزیں ہیں جو باقی تمام انٹرٹینمنٹ کو نگل چکی ہیں کچھ حالات و واقعات بھی ایسے ہیں کہ پارکوں میں جانا ،جھولے جھولنا ،گلی میں سرشام کھیلنا ،دوستوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا باتیں کرنا، چائے پینا،خواب ہوتے جا رہے ہیں حالات کے ساتھ باقی کسر کرونا نے پوری کر دی تھی زندگی کو گھر تک محدود کر دیا اور بس گھر میں بیٹھے ڈیجیٹل ورلڈ تک ہم محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
بچوں کو بہلانا ہو تو ٹی وی لگا دیا جاتا ہے کارٹون لگا دیے جاتے ہیں ماں کے کام جب تک نہ ختم ہو جائیں تب تک بچہ موبائل اور ٹی وی میں گم رہتا ہے تاکہ بچہ بہل جائے ۔
اب ماں بھی جب کام سے فارغ ہو کر شام کو ٹی وی لگا کر بیٹھے گی بچوں کو ساتھ لے کر بیٹھے گی کچھ فیملی ٹائم ہوگا اور ٹی وی دیکھا جائے گا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹی وی پر کیا کیا آ رہا ہے۔
یہ ایک ایسی روایت ہے جو بہت دہائیوں سے چلی آ رہی ہے شام کا کھانا سب مل کر اکٹھے کھاتے ہیں ٹی وی دیکھا جاتا ہے کوئی ایک خاص اچھا ڈرامہ مل کر دیکھا جاتا ہے فیملی ٹائم کیا جاتا ہے اور ڈرامہ دیکھا جاتا ہے پھر خبرنامہ سنا جاتا ہے اور پھر بس صبح اسکول جانے کے لئے بچوں کے سونے کی تیاری کی جا تی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو پورا دن گزارنے کے بعد تھوڑا سا فیملی ٹائم ہوتا ہے اور سب فیملی والے ماں باپ بہن بھائی بچے یہ سب مل کر بیٹھتے ہیں تو ہماری ٹی وی پر کیا ایسی کوئی چیز دکھائی جا رہی ہیں جو پوری فیملی مل کر دیکھ سکے یا بچوں کو ساتھ بٹھا کر وہ چیز دیکھی جا سکے۔
میرے خیال سے ہمارے جتنے بھی چینلز ہیں چینلز کی بھرمار ہے لیکن ہمارے چینلز پر کوئی بھی ایسا ایک ڈرامہ بھی نہیں چلایا جاتا ہے جس میں پوری فیملی مل کر بیٹھ کے دیکھ سکے ہمیشہ ایک موضوع ساس بہوکی لڑائی یا محبت کے افسانے ، شادی بیاہ اور طلاق انہیں ٹوپک پر ڈرامے بنائے جاتے ہیں ہمارے نوجوانوں کے کردار سازی کے لئے کوئی ڈرامہ نہیں بنایا جاتا ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کوئی ڈرامہ پیش نہیں کیا جاتا ایک ایسا ڈرامہ نہیں جو فیملی مل کر فیملی ٹائم میں دیکھ سکے، ہمارے اسلامی ہیرو کے بارے میں کوئی تاریخی ہیرو کے بارے میں کوئی ڈرامہ ہو جو بچے مل کر دیکھ سکیں جس سے کچھ سیکھ سکیں۔کچھ وقت پہلے ہمارے سرکاری ٹی وی پر کشمیر کے موضوع پر ڈرامے بنائے جاتے تھے اس کے علاوہ ٹیپو سلطان حیدر علی ایسے بہت سے ڈرامے ہیں جو بنائے جاتے تھے اور جنہوں نے بہت مقبولیت بھی حاصل کی آجکل ایسے ڈرامے ناپید ہیں۔جن سے ہماری نوجوان نسل کچھ سیکھ سکے کے ان کی کردار سازی ہو سکے
پچھلے دنوں ترکی کے ڈراموں نے دھوم مچائی ہے اور مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں انہوں نے یہ ڈرامے اچھے طریقے سے پیش کیے ہیں اس کی پکچرائزیشن بہت اچھی ہے اس کے الفاظ بہت اچھے ہیں جس سے ہماری نوجوان نسل ہمارے بچے کچھ سیکھ سکتے ہیں حوصلہ مند ہو سکتے ہیں آگے بڑھنے کی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں بہادر ہو سکتے ہیں ۔اور زیادہ کچھ نہ سیکھ سکیں صرف اتنا ہی انہیں پتہ چل سکتا ہے کہ ایک مسلمان بہادر ہوتا ہے وہ کبھی بھی کسی کے آگے نہیں جھکتا وہ صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھروسہ کرتا ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھروسہ کرکے انسان ہر مشکل کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ان ڈراموں میں مسلمانوں کا عروج اور طاقت دکھائی گئی ہے۔
ان میں ارتغل غازی ، کورلوس عثمان سیریز ، پایا تخت سلطان عبدالحمید وغیرہ ڈرامے ہیں یہ سب تاریخی ڈرامے ہیں اس میں ترکی نے اپنے ہیروز کو پوری دنیا میں اجاگر کر دیا ہے وہ اپنے ڈراموں کی وجہ سے ایسا میسج دنیا کو پہنچایا ہے کہ لوگ ترکی میں گھومنے کے لیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی سیاحت بڑھ گئی صرف ان کے ڈراموں کی وجہ سے۔اگر ایک ملک صرف ایسے ڈرامے بنا کر پوری دنیا میں اپنے نام کا ڈنکا بجا سکتا ہے کہ پاکستان میں آج بچے بچے کو ارتغل غازی عثمان عبدالحمید کے بارے میں پتا ہے ہمارے سرکاری چینل پرائیویٹ چینل ان ڈراموں کو چلا رہے ہیں تو کیا ہم ایسا کوئی کام نہیں کر سکتے کیا ہماری ڈرامہ انڈسٹری اتنی پیچھے کیوں ہے۔ ہم بھی کوئی ایسے ڈرامے تخلیق کریں جس سے پوری دنیا میں ہمارے ملک کا سافٹ امیج اجاگر ہو اور لوگ ہمارے بھی صرف ڈرامے دیکھ کر ہمارے ملک میں ہمارے لوگوں سے ملنے کے لیے آئیں اور ہماری بھی سیاحت بڑھ جائے۔ہمارے ڈراموں کا اور ملک کا دنیا میں ڈنکا بجنے لگے
اس کے برعکس ہماری ڈرامہ انڈسٹری صرف گھسے پٹے موضوعات کو لے کر بیٹھی ہے .
کیا ہمارے پاس کوئی اپنے ہیروز نہیں ہیں کوئی تاریخی کردار نہیں ہے کوئی اچھائی پر بنائے جانے والے ڈرامے نہیں ہیں جن کو ہم بنا سکیں اور اپنی نوجوان نسل کو بتا سکیں کہ ہماری تاریخ کتنی درخشاں اور روشن ہے کیا ہم اپنے نوجوانوں کی کردار سازی کے لئے کوئی ڈرامہ اور فلم بھی نہیں بنا سکتے ہماری انڈسٹری میں اتنا کیلیپر نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ہم دنیا میں ایک اچھے طریقے سے اجاگر کر سکیں ترکی نے صرف ڈرامے بنا کے پوری دنیا میں اپنا نام کر دیا ڈرامہ سے ان کی تاریخ کا ان کے لوگوں کے بارے میں پتا چل گیا کیا ہمارے میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ہم بھی ایسے ڈرامے بنا سکیں کہ پوری دنیا ہمارے ملک کا نام سب جان سکیں ہماری تاریخ کو جان سکیں اور ہمارے ہیروز کو جان سکیں
میری ڈرامہ انڈسٹری سے گزارش ہے کہ خدارا اس ساس بہو کی ہانڈی و شادی طلاق ،محبت، افیئرز فلرٹ وغیرہ کے ٹوپک سے باہر نکل آئیں اور کچھ نیا کر کے دکھائیں جو ہمارے نوجوانوں ہمارے بچوں کے لیے بہتر ہو۔
Comments
Post a Comment
Smiling kids